Breaking news; Current News Headlines on غیرسیاسی News(English)

Showing posts with label کالم. Show all posts
Showing posts with label کالم. Show all posts

Saturday, September 15, 2018

دو نہیں، ایک پاکستان

September 15, 2018 0
سلیم صافی

کمال کے آدمی ہیں جنرل پرویزمشرف بھی ۔ اقتدار سے باہر ہوکر بھی اتنے طاقتور ہیں کہ اپنے سے چھیڑخانی کی سزا میاں نوازشریف کو دھرنوں اور لاک ڈائونوں کے ذریعے اس شکل میں دے دی کہ زندگی بھریاد رکھیں گے ۔جسٹس(ر) افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد عدلیہ حقیقی معنوں میں آزاد ہونے لگی تھی لیکن جنرل پرویز مشرف نے ملزم ہوکر بھی اس عدلیہ کے غبارے سے ہوا نکال دی ۔جنرل صاحب کا تازہ ترین کمال دیکھ لیجئے کہ خود الیکشن میں حصہ لیا اور نہ ان کی پارٹی کوئی سیٹ جیت سکی لیکن انہی کی ٹیم حکمران بن گئی ۔ شیخ رشید احمد ان کی حکومت میں وزیرریلوے تھے اور اب دوبارہ اسی محکمے کے وزیر بن گئے ۔ جہانگیر ترین ان کی حکومت میں وزیر تھے جبکہ اب وزراء ، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کا تقرر کرتے ہیں۔ فواد چوہدری، جنرل مشرف کے ترجمان تھے اور اب حکومت کے ترجمان ہیں ۔ شفقت محمود ان کی حکومت میں معمولی وزیر تھے اور اب ترقی کرکے وفاقی وزیر بن گئے ۔ خسروبختیار ان کی حکومت میں وزیرمملکت تھے اور اب پورے وزیر بن گئے۔ علیم خان ان کی ٹیم کے ادنیٰ ممبر تھے اور اب پورے پنجاب کے مختار بن گئے ۔ چوہدری پرویز الٰہی ان کے دست راست تھے اور اب عمران خان نیازی کی ٹیم کے اہم کھلاڑی ۔ فروغ نسیم غداری کیس میں ان کے وکیل ہیں اور اب وفاقی وزیر قانون بن گئے ۔جس وزارت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا کیس درج کیا تھا، ان کے وکیل کے پاس اس کا قلمدان آگیا۔ زبیدہ جلال پورے بلوچستان میں وزارت کے لئے جنرل صاحب کا حسن انتخاب بنی تھیں اور اب دوبارہ وفاقی وزیر بن گئیں۔ عمر ایوب ان کے وزیر مملکت تھے اور اب مکمل وفاقی وزیر بن گئے ۔ عامر کیانی ان کی ٹیم کے معمولی سے کارندے تھے اور اب مکمل وزیر ہیں ۔ اور تواور جو مرزا شہزاد اکبر ،جنرل صاحب کی ٹیم میں قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر تھے ، اب نئے پاکستان میں پورے احتسابی عمل کے انچارج بن گئے۔ خود وزیراعظم عمران احمد خان نیازی بھی ان کے اپنے ہی ہیں کیونکہ ریفرنڈم میں انہی کے لئے ووٹ مانگے تھے اور ان ہی کو چھڑانے کے لئے دھرنے دئیے ۔گویا جنرل صاحب کی ٹیم ایک نئی شکل میں دوبارہ مقتدر بن گئی ہے اور پی ٹی آئی کی شکل میں ان کو اور ان کے جانشینوں کوایک نئی مسلم لیگ (ق) مل گئی ہے ۔ یوں اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بزداروں ، محمود خانوں اور علیم خانوں پر مشتمل ٹیم کتنی انقلابی ہوگی اور وہ لوگ احمقوں کی کیسی جنت میں رہتے ہیں جو اس حکومت سے انقلاب کی توقع وابستہ کئے ہوئے ہیں ۔ نئے حکمران بھی جانتے ہیں اور ہم بھی کہ اس ملک کے اصل مسائل یعنی خارجہ پالیسی، داخلی سلامتی اور سول ملٹری تعلقات جیسے اہم ترین ایشوز اس کے دائرہ اختیار میں شامل ہیں اورنہ اسے چھیڑنے کا انہیں حق دیا جائے گا ۔ اسی لئے ان اصل ایشوز کے بارے میں کوئی ہوم ورک ہے اور نہ ان حوالوں سے کچھ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔اب تک کے اقدامات سے واضح ہوگیا ہے کہ مرکز ، پنجاب اور بلوچستان میں بھی اسی طرح کے نمائشی ڈراموں سے کام چلایا جائے گا جس طرح کہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ پانچ سال چلایا گیا ۔ اس پارٹی کے قائد کا کمال یہ ہے کہ وہ بیک وقت ایک نہیں ، دو نہیں بلکہ کئی چہروں کے ساتھ جی سکتے ہیں ۔
نئے پاکستان کی نئی حکومت کی پوٹلی سے ابھی تک جو دو ڈرامے باہر آئے ہیں ، ان میں ایک سادگی اور دوسرا احتساب کا ڈرامہ ہے اور ہم بھی کتنے سادہ ہیں جو ان پر بحث مباحثہ کرکے اپنا اور قوم کا وقت ضائع کررہے ہیں ۔ تجزیے ہورہے ہیں کہ کیا یہ مہمات کامیاب ہوجائیں گی یا نہیں ۔ حالانکہ ان کو جانچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان دو حوالوں سے گزشتہ پانچ سال کے دوران خیبر پختونخوا میں عمران خان کی پارٹی کی کارکردگی ملاحظہ کی جائے ۔باقی پاکستان کے لئے یہ ڈرامے شاید نئے ہوں لیکن ہم خیبر پختونخوا والے ان کا انجام دیکھ چکے ہیں ۔ وہاں اقتدار سنبھالنے کے بعد پی ٹی آئی نے اپنی مرضی کی قانون سازی کرکے ایک احتساب کمیشن بنایا ۔ اس کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا کہ ہر طرف احتساب ہی احتساب نظر آرہا تھا۔ خان صاحب نے اپنے ایک پرانے دوست لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد خان کو سربراہ بنا دیا اور زیادہ تر ڈی جیز بھی سابق فوجی افسران لگائے گئے ۔ جب جنرل حامد نے سچ مچ پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ اور وزراء کے احتساب کا سوچا تو ترمیم کرکے ان کے اختیارات محدود کردئیے گئے ۔ انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا ۔ اپنے بنائے ہوئے قانون کی رو سے تین ماہ کے اندر اندر نئے سربراہ کا تقرر ضروری تھا لیکن دو سال تک غیرقانونی طور پر صوبائی وزیر شاہ فرمان کے قریبی عزیز کو اس لئے قائم مقام ڈی جی رکھا گیا کہ کہیں سچ مچ احتساب نہ ہونے پائے ۔ پانچ سال گزرنے کے بعد اب اس احتساب کمیشن کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے اورکسی کا احتساب تو دور کی بات ، قومی احتساب بیورو کی طرز پرچند کروڑ رقم بھی وصول نہ کروا سکا ۔ عمران خان کے اس احتساب کمیشن پر سرکار کے خزانے سے ۸۲ کروڑ روپے خرچ ہوئے جبکہ اس نے صرف بارہ لاکھ روپے کی وصولی کی ۔ دو سال تک اس احتساب کمیشن کے ڈائریکٹر رہنے والے بریگیڈئر (ر) طارق حسین کے مطابق اس احتساب کمیشن میں تقرریاں بھی قواعد کے خلاف اور جعلی کاغذات کے ذریعے ہوئی ہیں اور وہ مطالبہ کررہے ہیں کہ قومی احتساب بیورو سے صوبائی احتساب کمیشن کا احتساب کروایا جائے ۔ یہ تھا خیبر پختونخوا میں عمران خان کے احتساب کا خلاصہ۔ اب آئیے سادگی پر ۔ وہاں بھی پرویز خٹک نے اعلان کیا تھا کہ وہ وزیراعلیٰ ہائوس میں نہیں رہیں گے ۔ آٹھ دس دن وہ حیات آباد میں ذاتی گھر میں رہے ۔ پھرا نیکسی منتقل ہوئے اور ایک ہفتہ بعد وہ پورے وزیراعلیٰ ہائوس پر قابض ہوگئے ۔ وزیراعلیٰ ہائوس کے اخراجات گزشتہ پانچ سالوں میں ماضی کی کسی بھی حکومت سے زیادہ ہوئے ۔ اسی طرح کے پی ہائوس نتھیاگلی ماضی کی تمام حکومتوںکے مقابلے میں زیادہ استعمال ہوا ۔ یہی حالت کے پی ہائوس اسلام آباد کی بھی رہی جس کے اخراجات کی تفصیل تو میں اپنے ٹی وی پروگرام میں بھی دکھا چکا کہ کس طرح غیرمتعلقہ لوگ بھی آکر صوبائی حکومت کے وسائل کو استعمال کرتے رہے اور کس طرح ایک وقت کی چائے کے بل لاکھوں میں سرکاری خزانے سے ادا ہوتے رہے ۔ لیکن اب وفاق اور صوبوں میں ان ڈراموں کو نئے انداز میں دہرایا جارہا ہے ۔ پہلے کہا گیا کہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے ۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم ملٹری سیکرٹری کے گھر میں رہ رہے ہیں حالانکہ وہ اسی وزیراعظم ہائو س کے اندر ہے ۔ باقی اخراجات اسی طرح ہورہے ہیں جس طرح ماضی میں ہوتے رہے ۔ ایک اضافی خرچہ یہ آیا کہ وزیراعظم ملٹری سیکرٹری کے گھر کو استعمال کرررہے ہیںتو ملٹری سیکرٹری پرنسپل سیکرٹری کے گھر منتقل ہوئے جبکہ پرنسپل سیکرٹری نے باہر اپنے لئے گھرلے لیا۔
یوں ایک بنگلہ اضافی استعمال میں آنے لگا ۔ ریاست مدینہ کا ورد کرنے والے محترم عمران خان صاحب جب سے وزیراعظم بنے ہیں، وہاں سے بغیر ہیلی کاپٹر کے باہر نہیں نکلے ۔ بنی گالہ اور وزیراعظم ہائوس کے درمیان ہیلی کاپٹر استعمال ہورہا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ ان کاکتا بھی ہیلی کاپٹر کے مزے لے رہا ہے ۔ جب وزیراعظم بنی گالہ سے ہیلی کاپٹر میں بیٹھتے ہیں تو ان کا سیکورٹی اسٹاف تو سڑک کے راستے گاڑیوں میں وزیراعظم ہائوس کی طرف دوڑنے لگتا ہے لیکن کتاوزیراعظم کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ جاتا ہے اور پھر جب وہ وزیراعظم ہائو س سے بنی گالہ تشریف لے جاتے ہیں تو دوبارہ کتا وزیراعظم کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں تشریف رکھ لیتا ہے ۔ اس سے بڑی تبدیلی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہیلی کاپٹر صرف پچپن روپے فی کلومیٹر خرچہ کرتے ہوئے اڑنے لگے ہیں اور اب کتے بھی ہیلی کاپٹروں میں سفر کرنے لگے ہیں ۔ اس سے بڑھ کراسلامی دور کا نمونہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ یہی ہوا نا ایک پاکستان۔

بابا ڈیم

September 15, 2018 0
سہیل وڑائج

15ستمبر 2050ءکی خنک شام میں بوڑھی نانی لحاف لپیٹے بیٹھی تھی کہ بچے اکٹھے ہوگئے اور نانی سے تقاضا کرنے لگے کہ آج کوئی نئی کہانی سنائو۔ بوڑھی نانی نے سرہانے پڑے لیپ ٹاپ کو آن کیا بچوں کو ایک ڈیم کی تصویر دکھائی اور ساتھ ہی ڈیم کی چوٹی پر بنی ایک جھونپڑی دکھائی جس میں ایک بوڑھا بابا رہتا ہے، وہی اس ڈیم کو بنانے والا ہے اور وہی اس ڈیم کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ بچے ضد کرنے لگے کہ یہی کہانی سننی ہے ایک بچے نے کہا نانی اماں اکثر کہانیاں تو فرضی ہوتی ہیں کیا یہ بھی فرضی ہے؟ نانی نے ہنستے ہوئے کہا کہ نہیں یہ بالکل سچی اور اصلی کہانی ہے اور پھر یوں گویا ہوئیں۔ ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مملکت خداداد میں ابتری پھیل گئی، امن و امان کی حالت خراب ہوگئی، نظام حکومت تباہ ہوگیا، ہر وزیر نے دو دو تین تین شادیاں کرلیں، کرپشن عروج پر پہنچ گئی، ٹھیکوں میں سے کمیشن لیا جاتا تھا اور پھر یہ رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیج دی جاتی تھی، اسپتالوں کا حال خراب تھا، حاملہ عورتیں برآمدوں میں بچے جننے پر مجبور تھیں،اسکولوں میں جانور باندھے جاتے تھے اور تو اور پانی کا قحط پڑنے والا تھا۔ کہیں پانی کو ضائع کیا جاتاتھا اور کہیںلوگ بوند بوند پانی کو ترستے تھے۔ ہر کسی کو علم تھا کہ پانی کی کمی کے مسئلے کا واحد حل نئے ڈیم کی تعمیر ہے لیکن کوئی اس مشکل اور مہنگے ترین کام میں ہاتھ ڈالنے پر تیار نہیںتھا مگر پھر ایک منصف مزاج بابا نے اس کام کا بیڑا اٹھا لیا اور اس سرگرمی سے فنڈز اکٹھے کئے کہ دنوں میں اربوں روپے جمع ہونے لگے۔ قوم کا مزاج بھی بدل گیا، ملک سے ابتری دور ہونے لگی۔ مسیحا نے وہ رنگ دکھایا کہ نظام حکومت میں اصلاحات پر سوچ و بچار شروع ہوگئی، امن و امان میںبہتری آنے لگی۔ وزیر، مشیر خوفزدہ رہنے لگے، کرپشن پر کنٹرول ہونے لگا، ٹھیکوں میں سے کمیشن کم ہوگیا، کرپٹ افراد ڈرنے لگے، ہسپتالوں کی حالت بہتر ہونے لگی، مخلوق خدا کی سنی جانے لگی، خود بابا چھٹی کےروز بھی عدالت لگا کر مجبور اور غریب لوگوں کے حالات سن کر فوراً احکامات جاری کرتا،اور تو اور اسکولوں کا نظام بھی بہتر ہونے لگا، ڈر کا رشتہ بھی عجیب ہوتا ہے ہر ایک باشندے میں اصلاح احوال کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی تو پانی کے حوالے سے بھی بہتر منصوبہ بندی ہونےلگی اور مملکت خداداد پانی میں خود کفیل ہوگئی۔ حالات کی اس تبدیلی کا بیرون ملک آباد پاکستانیوں پر بہت گہرا اور مثبت اثر پڑا، ہر طرف سے ڈالروں اور پائونڈوں کی بارش ہونے لگی۔وزیراعظم عمران خان بھی اس مہم میں شریک ہوگئے لیکن اس مہم کے اصل دولہا بابا جی ہی تھے ، اسی لئے جناب سپہ سالار نے بھی ڈیم کی تعمیر کےلئے مسلح افواج کی طرف سے چیک انہیںہی پیش کیا۔
کہانی یہاں تک پہنچی تھی کہ ایک شریر بچی تاویل خانم نے سوال جڑ دیا کہ نانی یہ تو افسانہ ہے، حقیقت بھلا ایسے کیسے ہو سکتی ہے، کیا صرف ایک شخص پورے نظام کو بدل سکتا ہے؟ آج2050 میں تو ایسا ممکن نہیں۔ نانی مسکرائیں اور کہا بچو اب دنیا بدل چکی ہے 30سال پہلے افراد ہی دنیا کوبدلا کرتے تھے، پھر نانی نے کہا کہ یہ دور میں خود دیکھ چکی ہوں یہ تبدیلی میں نے خود رونما ہوتے دیکھی تھی اور میں خود اس کی عینی شاہد ہوں اور اس سچ کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مملکت خداداد میں آج کہیں پانی کی کمی نہیں۔ اس مہم کا آغاز اسی دور میں ہوا تھا اور پھر کیا ہوا کہ جب یہ مہم کامیاب ہوئی، ڈیم بن گیا تو مملکت خداداد نے دیامر بھاشا ڈیم کو بابا ڈیم کا نا م دے دیا اور خدا سے دعا کی کہ اس بابا جی کو عمر خضر عطا کرے تاکہ وہ وہاں رہ کر ڈیم کی چوکیداری کرسکے۔ خدا تو پہلے ہی مملکت خداداد پر مہربان تھا صرف اس کی نالائقیوں سے خفا تھا، بس خدا نےیہ دعا سن لی اور اب بابا ڈیم کے اوپر جھونپڑی میں اب بھی وہی بابا رہتا ہے وہ ڈیم کی حفاظت کرتا ہے، چوکیداری کرتا ہے اور یوں اس مملکت خداداد کے حوالے سے وہ بابا امر ہو چکا ہے۔
تاویل خانم کے سوال رکتے نہ تھے پھر بولی تو کہا اس وقت آئین اور قانون نہیں ہوتا تھا؟ ادارے نہیں تھے جو آئین اور قانون پر عمل کرتے؟ کیاسسٹم کام نہیں کرتا تھا؟ ایک شخص کیسے سب کچھ بدل سکتاہے؟ بوڑھی نانی پھر مسکرائیں اور کہنے لگیںبچو! آئین بھی تھا، قانون بھی، اور ادارے بھی تھے مگر یہ سارے سست اور مردہ ہو چکے تھے۔ چیف جسٹس بابا نے ان قوانین اور آئین کو جھنجوڑا اس کا خلاصہ لوگوں کے سامنے پیش کیا اور مملکت خدا داد میں اپنے تحرک اور خلوص سے ایسی فضا قائم کی جس سے اصلاح کا راستہ ہموار ہوا ۔ قومی دولت لوٹنے والے ڈرنے لگے اور یوں مملکت خداداد ایک نئے راستے پر چل نکلی۔
کہانی سننے والوں میں ایک بچہ سر پھرا کہلاتا تھا نانی نے توقف کیا تو سر پھرا بولا نانی!اس وقت کے سیاستدان کیا کر رہے تھے ، آج کل تو ملک کا نظام سیاستدان چلاتے ہیں کیا اس زمانے میں وہ نہیں ہوتے تھے؟
نانی نے مسکرا کر سرپھرے کو دیکھا اور کہا بیٹا عمران خان اس وقت وزیر اعظم تھا اور اس نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا اس نے بھی اپیل کی کہ ڈیم بنانے میں مدد کی جائے۔
سر پھرا مطمئن نہ ہوا اور کہنے لگا نانی آپ تو ہیرو صرف بابا کو کہہ رہی ہیں، وزرا، اپوزیشن، مشیر اور گورنر کہاں تھے؟
نانی سر پھرے سے اچھی طرح واقف تھیں انہیں پتہ تھا کہ 2050ء کی جنریشن کے بچے اسی طرح کے الٹ پلٹ سوال کرتے ہیں اس لئے بوڑھی نانی نے پھر مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ساری قوم ہی ہیرو تھی سب نے حصہ لیا لیکن بہرحال اس مہم کا سہرا بابا جی ہی کے سر پر ہے۔
سر پھرا پھر بولا سیاسی جماعتوں نے کتنے فنڈز اکٹھے کئے۔ بوڑھی نانی کچھ دیر سوچتی رہیں شاید یاد کر رہی تھیں کہ کس نے کتنا فنڈ دیا تھا پھر انہیں یاد آیا کہ ایسا تو کچھ نہیں ہوا تھا۔ مسکراتے ہوئے بولیں نواز شریف جیل میں تھا اور آصف زرداری کو جیل نظر آ رہی تھی وہ ڈیم میں فنڈز کیسے دیتے۔
سر پھرا اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ نواز شریف سے ایک ارب روپیہ ڈیم کے لئے لیا جاتا اور زرداری سے دو ارب، تو کیا اس سے ان کی معافی تلافی نہیں ہوسکتی تھی، ایسا ہوتا تو وہ بھی قومی دھارے اور نئے پاکستان کے مزے لے سکتے تھے۔
نانی بولی! سیاست کے سینےمیں دل نہیں ہوتا، مملکت خداداد میں ہر چیز کی اصلاح ہوگئی مگر سیاسی عداوت کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ اگر یہ ہو جاتا تو یہ جنت ارضی ہوتی مگر کاش!!۔

Featured Post

Saturday Night Live hit with major blow ahead of new season

Saturday Night Live hit with major blow ahead of new seasonEgo Nwodim shocked fans after announcing her exit from Saturday Night Live, mark...

PageNavi Results No.

LightBlog